haider mehdi writer


My opinion voiced many time earlier, is that no Army Chief should be given an extension and the institution must be stronger than the individual!Gen. Yahya’s Martial law was a disaster. It is this which keeps Nawaz, Zardari, Bilawal, Fazlu, Asfandyar, Achakzai their courtiers and vested interests, the elite of Pakistan who have looted and plundered at will, awake at night and soil their clothes!Imran’s success in delivering good governance is our only way to transforming our society. My only plea to Gen. Bajwa. Forgot account?

But the timing of this “suo moto” is very awkward and looks extremely suspicious, especially given that he’s rarely taken a suo moto. -Haider Mehdi.

Yes! I swear I’m not joking. It’s clearly a duck or a suo moto!And if ever there was an opportunity for a suo moto, then it was to stop Nawaz from traipsing off to good old London land, after the Punjab High Court allowed him to do so or in the least maintaining the Rs. The caravan moves on, this barking dog stops.But perhaps this time the barking dog was warning the caravan of a gathering storm!Or the King proves me completely and very happily wrong!ایک سابق امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ نے جواں مردی اور ناقدین کی بات یوں کی ہے۔ زندگی میں جیت نکتہ چینی کرنے والوں کی نہیں ہوتی۔ نہ ہی جیت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بہادر انسان کے لڑکھڑانے کاسرعام چرچا کرتے ہیں۔ نہ ہی وہ لوگ جیتتے ہیں جو کہتے ہیں کہ میں یہ کام اس سے بہتر کر سکتا ہوں۔ دراصل ہمیں اس آدمی کو سراہناچاہئے جو اکھاڑےمیں موجود ہے۔ جس کا چہرہ مٹی ،پسینے اور خون سے لتھڑا ہوا ہے۔ جو جستجو کر رہا ہے۔ جو غلطیاں بھی کر رہا ہے۔ جو بار بار کوشش کے باوجود منزل تک نہیں پہنچتا۔اس لئے کہ ہر جستجو میں کچھ ناکامیاں بھی لازم ہیں۔ لیکن چونکہ وہ جوانمرد جوش سے لبریز ہے اور ڈٹا ہوا ہے۔ وہ اپنے ایمان کا پکا ہے اور اپنے ہدف کو حاصل کرنے کی تگ و دومیں لگا رہتا ہے۔ ایسے ہی جوانمرد کو فتح مبین اور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔اگر کامیابی نہیں ملتی تب بھی وہ اپنی جستجو اور اپنی کاوش کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ایسا آدمی ان کمزور اور ڈرپوک لوگوں سے بہت بہتر ہے جنہوں نے زندگی میں نہ تو کبھی جستجو کی اور نہ کبھی ہار یا جیت دیکھی ہو۔مندرجہ بالا قول میںمیرے جیسے ان ناقدین کو خوبصورتی سے بے نقاب کیا گیا ہے جو بیرون ملک اندرون ملک آرام دہ نشستوں پر براجمان ہوکر گھر بیٹھے پاکستان کے سیاسی سفر ، عمران خان کی حکومت اور ہمارے مستقبل کے بارے رائے زنی کرتے رہتے ہیں۔یہی وہ کمزور اور ڈرپوک لوگ ہیں جنہوں نے کبھی جیت یا ہار کا مزہ نہیں چکھا ہوتا۔اس قول کے مطابق عمران خان جیسے لوگ ہی شاباش کے مستحق ہیں جو میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ جن کا چہرہ مٹی، پسینے اور خون سے اٹا ہوا ہے مگر وہ بہادروں کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ جن سے غلطیاں بھی سر زد ہوتی ہیں۔ کئی بار ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوتیں۔ اگر وہ کبھی ناکام بھی ہو جائیں تو ملال نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے کامیاب ہونے کی سرتوڑ کوشش کی۔میں بذات خود کمزور اور ڈرپوک لوگوں کی طرح سہل پسند نقاد ہوں۔میں بوجھل دل اور بڑے دکھ کے ساتھ میدان عمل میں ڈٹے ہوئے جوانمرد عمران خان کے بارےآخری بار لب کشائی کی جسارت کر رہا ہوں۔ملال اس بات کا ہے کہ میں نے پاکستان کی ترقی اور بہتری کے لئے چھ سال ان تھک محنت کی۔ پانچ سال اپنی تحریروں کے ذریعے اور ایک سال سیاسی میدان عمل میں رہ کر جدوجہد کی۔ یہ سلسلہ اس وقت رک گیا جب یہ احساس ہوا کہ ہم جیسے لوگوں کی کوئی اہمیت ہے نہ وقعت۔ کیونکہ ہماری جیب میں نہ پیسہ ہے ، نہ ہمارا کوئی سیاسی خاندانی پس منظر ہے اور نہ ہی ہماری عمران خان کے ساتھ ذاتی علیک سلیک ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں کوئی سیاسی یا سرکاری عہدہ پانے کی کوئی حاجت ہے۔ہماری حیثیت قافلے پر بھونکنے والے کتوں کی سی ہے جن کو کوئی قابل توجہ نہیں سمجھتا۔ اس دوڑ دھوپ میں ہم کئی دشمن بنا لیتے ہیں، کئی عزیز ترین رشتوں سے محروم ہو جاتے ہیں یا ان رشتوں میں دراڑ آجاتی ہے۔دل کو یہ اطمینان ضرور ہے کہ اس فیصلے کے بعد اب نہ میری راتیں بے خواب ہونگی، نہ جذبات بر انگیختہ ہوں گے اور نہ نروس بریک ڈاؤن کا خطرہ درپیش ہوگا۔ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین اور پی ٹی آئی کے جیالوں اور اپنے فوجی دوستوں کی آئے روز کی تنقید کے ہتھوڑوں سے بھی نجات مل جائے گی۔افسوس اس بات کا ہے کہ عمران خان کی سربراہی میں پاکستان بہتری کے مواقع کھو رہا ہے۔ اُس سے تعمیر نو اور بہتری کی جو امیدیں وابستہ کر لی تھیں وہ تیزی سے دم توڑنے لگی ہیں۔پہلے یہ عرض کردوں کہ عمران خان کی ایمانداری، استقامت، خلوص، عزم، ولولے، اس کی کرشماتی قیادت اور مقبولیت کے بارے مجھے رتی بھر شک نہیں۔اگر عمران میں یہ خوبیاں نہ ہوتیں تو شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا قیام نا ممکن تھا۔اسی طرح دیگر ذرائع سے ملنے والی مدد کے باوجود پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر کبھی اقتدار میں نہیں آسکتی تھی۔عمران خان کی کرپشن کے خلاف غیر متزلزل جدوجہد ان ثمرات کی درخشاں مثال ہے جو اس کی بائیس سال کی ان تھک محنت کے بعد پاکستان سے دو جماعتی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی شکل میں ملے۔قوم کو شریف، بھٹو اور زرداری خاندانوں کی کرپشن سے نجات دلا کر عمران خان نے تاریخ میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے۔کرپٹ عناصر سے جان چھڑانا بلا شبہ مشکل کام تھا یہ معرکہ عمران نے بخیر و خوبی سر کر لیا۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرےمیں لاکر سزا دلوانا انتہائی مشکل کام لگنے لگا ہے۔شریف ، بھٹو اور زرداری خاندانوں نے جس طرح جی بھر کر لوٹ مار کی ۔ ان کی کرپشن کے دور کی واپسی کا سد باب کرنااور برباد ریاستی اداروں کی بحالی اور ان کی تعمیر نو بہت مشکل کام تھے ۔ ایسی اچھی طرز حکومت کا کے قیام کا کام سب سے مشکل امر ہے جو نہ صرف عمران کی حکومت بلکہ اس کے بعد اقتدار میں آنے والوں کے لئے بھی طویل مدت تک کارآمد ثابت ہو۔ اس مقصد کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں وہ ہیں:ان مقاصد کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ایماندار اور اہلیت کے حامل افراد کو ان کی مہارت اور قابلیت کے پیش نظر ریاستی اداروں میں امور سلطنت سونپے جائیں۔عام زندگی میں خانساماں، ڈرائیور، چپڑاسی، چائے پلانے والے، صفائی والے، مستری، پلمبر، استاد، وکیل، اکاؤنٹنٹ، انجنیئر، سائنسدان، ڈاکٹر یا کمپیوٹر ایکسپرٹ کی ضرورت ہو تو ہم اُن افراد کا چناؤ کرتے ہیں جنہیں یہ مہارت اور تجربہ حاصل ہو۔ لیکن جب معاملہ سیاسی اقتدار ، اختیار اور حکومت سونپبے کا ہو تا ہے تو ہم سب کچھ سیاسی شعبدہ بازوں کو سونپ دیتے ہیں۔اسے اقتدار میں آئے ایک سال ہو چکا ہے مگر وہ اپنے دانشمند جیالوں اور میرے جیسے مداحوں کو باور کرانے میں بار بار ناکام ہوگیا کہ اس نے کاموں کی درست انجام دہی کے لئے اہلیت سے بھرپور لوگوں کو تعینات کیا ہے۔پیشتر اس کے کہ لوگ اس معاملے میں کود پڑیں ایک بات واضح کر دوں:کسی کو بھی ایک سال میں معاشی معجزے رونما ہونے کی امید نہیں تھی۔کوئی بھی یہ توقع لگا کر نہیں بیٹھا کہ ایک، دو، تین یا دس سالوں میں پاکستان کا شمار اول درجے کے ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے گا۔نہ کسی کو یہ امید تھی کہ ایک سال میں پولیس کی اصلاح ہو جائے گی۔کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ سال بھر میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان صحت اور تعلیم کے میدان میں درخشاں مثالیں قائم کر دیں گے۔نہ ہی کوئی یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ ایک سال میں اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ سچا اور بے مثال انصاف فراہم کرنے لگ جائیں گی۔ہمیں عمران خان سے ایک امید تھی وہ یہ کہ سیاسی اتحادیوں کے دباؤ اور جبر کے باوجود وہ ایماندار اور اہل افراد کا شفاف انداز میں تقرر کرے گا۔اسی ناکامی کی وجہ سے عمران سے لگائی گئی ملک کی بہتری اور ترقی کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم موزوں اور اہل افراد کا انتخاب نہیں کرسکتے تو ہمیں تعمیر نو، ترقی اور اچھی طرز حکومت کے خواب بھول جانےہوں گے۔عمران خان کی ایمانداری، تبدیلی کی خواہش اور اس کے خلوص کے باوجود اس کے گلے میں دو طوق پڑے ہوئے ہیں جو پاکستان اور خود عمران کی اپنی حکومت کے لئے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔بالعموم عمران کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کے ساتھ چپکے رہیں ۔ اس کی بڑائیاں بیان کر کے اور حد سے بڑھ کر خوشامد کر کے اس کی انا کو تسکین پہنچائیں۔ اس طرح کے کاسہ لیس لوگ کلیدی اسامیاں اچک لیتے ہیں اور محروم رہ جانے والوں کو ٹھینگا دکھا کر زچ کرتے ہیں۔نجیب ہارون، شبلی فراز، عندلیب عباس اور پارٹی کےدرجنوں ممبران اسمبلی باہر بیٹھے پیچ و تاب کھاتے رہ جاتے ہیں اور فواد چودھری، واڈا، سواتی، فردوس عاشق اعوان، گنڈاپور ، زرتاج گل، یوسف بیگ مرزا اور میرے بہت سے دوست جن کا نام لینے سے وہ بدک جائیں گے عمران کے کمرے میں گھس جاتے ہیں۔میں ایک موقع پر موجود تھا جب پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی ایام میں عمران خان نے یوسف بیگ مرزا کی خواہش پر ا س کی پی ٹی وی کے مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر تقرری کی درخواست اس کے تاریک ماضی ، مذموم حرکات اور خراب شہرت کی وجہ سے رد کر دی تھی کیونکہ اس کی قربت سے عمران پر منفی اثرات پڑ سکتے تھے۔اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا۔اور پھر عمران اسمٰعیل اور شاہ فرمان کا بطور گورنر اور محمود خان اور عثمان بزدار کا بطور وزیر اعلیٰ تقرر حیران کن تھا۔حال ہی میں عمران خان نے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لئے اپنے ایک دوست کا ایک ادارے کے سربراہ کےطور پر تقرر کیا ہے۔ اگر اہلیت اور شفافیت کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو وہ دوست یہ عہدہ نہ لے پاتا۔ عمران سے شناسائی رکھنے والے کہتے ہیں کہ کچھ با اثر اور طاقتور لوگ اس کے گرد جمع ہیں جو با صلاحیت لوگوں کو عمران کے قریب نہیں پھٹکنے دیتے کیونکہ اس طرح عمران پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی۔لیکن جب بھی عمران نے کسی بڑے عہدے کے لئے موزوں شخص کا تقرر کیا اس کے ثمرات سالوں میں نہیں مہینوں میں ملنے لگے۔شبر زیدی جیسے اہل ، ماہر اور با کردار شخص کی چیئرمین ایف بی آر کے طور پر تقرری قابل تحسین ہے۔ جب کہ عمران نے اپنے اطراف میں موجود جن خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کی خود اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں کی وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے پالیسی سازی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔عمران کے گرد چاپلوسوں اور خوشامدیوں کی مسلسل موجودگی پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دل کا گھاؤ اور گہرا ہو جاتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ ان نا اہلوں اور کاسہ لیسوں کی اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں اس عمران خان نے خود کی ہیں جو کہتا تھا کہ تعیناتیوں کے سلسلے میں وہ شفافیت اور اہلیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔عمران خان کے قول اور فعل میں زمین آسمان کا فرق ہے جسے اخلاقیات کی لُغت میں منافقت کہا جاتا ہے۔عمران کے گلے میں لٹکتا دوسرا طوق یہ ہے کہ ایک سال گذر جانے کے بعد بھی عمران خان کی نا تجربہ کاری، لا علمی، نالائقی اور حکومتی امور کو سمجھنے میں ناکامی کا ہے۔اس کی نا تجربہ کاری اور لاعلمی کی وجہ سے اس کے مشیر اور کابینہ اراکین اس کو گمراہ کرتے ہیں اور اس پر دباؤ ڈالے رکھتے ہیں۔جی آئی ڈی سی(گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس) کے معاملے میں ہونے والی خفت کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ کئی تجارتی حلقوں کی جانب سے حکومت کے خلاف مقدمہ بازی کی بھرمار سے گلوخلاصی کرانے کے لئے شفاف اقدام تھا جس کا مقصد عدالت کو اعتماد میں لے کر معاملہ حل کرانا تھا۔اس اقدام سے حاصل ہونے والے فوائد سے قطع نظر میں یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ کس طرح عمران خان اور اس کی حکومت نے اس معاملے میں اپنا منہ کالا کروالیا۔کابینہ کے لئے صدارتی آرڈیننس کے اجراء سے پہلے جب سمری تیار کی جارہی تھی تو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ میڈیا اس معاملے کو 300ارب روپے معاف کرنے اور حکومتی عناصر کی کرپشن کےکیس کے طور پر پیش کرے گا۔کسی نے اس مسئلے کے بارے میڈیا کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالوں جوابوں کی پیش بندی کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔جلد بازی میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں وزیر توانائی عمر ایوب ، مشیر برائے توانائی ندیم بابر اور مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے چہروں سے عیاں تھا کہ وہ میڈیا سوالات کا جواب دینے کی تیاری کرکے نہیں آئے تھے۔کسی نے عمر اسد سے رابطہ کرنے کا بھی نہیں سوچا۔ گو آجکل عمران خان اسد عمر سے گریزاں ہیں تاہم وہی بتا سکتے ہیں کہ جی ڈی آئی سی ریفنڈ کے پردے میں کون سی منطق پوشیدہ تھی۔کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ صدارتی آرڈیننس کے اجراء سے پہلے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے آزمائشی طور پر ٹی وی ٹاک شوز کے اینکروں سے اس بارے رائے لی جائے۔کسی سرکاری افسر نے زحمت نہیں کی کہ صدارتی حکم جاری کرنے سے پہلے اس سلسلے میں دو درجن میڈیا اینکروں سے ہونے والے آف دی ریکارڈ مباحثے کے سوالوں جوابوں کی تفصیلات جمع کرکے دیکھی جائیں۔میرا تجربہ کہتا ہے کہ ان میں سے 60-70% اینکروں کی تشفی کردی گئی تھی اور انہوں نے میڈیا پر سرکاری موقف کی حمائت بھی کی تھی۔باقی 30-40%اینکر متفق تو تھے مگر سیاسی مصلحت کے پیش نظر وہ مسئلے کے منفی پہلو پر بحث کرتے رہےیا انہوں نے اس مسئلے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔کئی ایک نے اس معاملے کو سو فیصد فہم و فراست اور بصیرت کا مرقعہ قرار دیا۔ جو لوگ میڈیا بیانیہ کی گردن حسب منشا موڑنے کا گرُ جانتے ہیں انہوں نے اسے میڈیا بیانیہ کو کنٹرول کرنے کا فارمولا نمبر 101قرار دیا۔بیچاری فردوس عاشق اعوان کو معاملے کی باریکیوں کی شُد بدھ نہیں تھی پھر بھی وہ بن پانی مچھلی کی طرح تلملاتی رہیں۔ جبکہ وزیر توانائی عمر ایوب کا اصرار تھا کہ ان کے موقف کو من و عن تسلیم کیا جائے۔مشیر توانائی ندیم بابر کو میڈیا کے بپھرے بھیڑیوں کے سامنے سرکاری موقف کے دفاع کا ناخوشگوار فرض سونپا گیا جسے نبھانے میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ابھی دو روز سے ایک حکومتی فیصلے کا میڈیا پر بڑا چرچا ہوا ۔ وزیر اعظم نے (مجاز اتھارٹی) حکومتی امور میں جدّت لانے کی غرض سے ایک نئی ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔اس ٹاسک فورس کی سربراہی جن صاحب کو سونپی گئی ہے وہ جنرل مشرف کے زمانے سے اپنی شیریں گفتار کے لئے مشہور ہیں۔ٹاسک فورس کے باقی ممبران میں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ، ایک حاضر سروس اعلیٰ افسر کے علاوہ آئی ٹی اور آبی مہارت رکھنے والے دو ممبران شامل ہیں۔ان لوگوں کو فِکس پاکستان کا فرض سونپا گیا ہے۔ان کے ٹی او آر پڑھے جائیں تو میٹر گھوم جاتا ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ٹاسک فورس بھی ان بیسیوں ٹاسک فورسوں میں ایک اضافہ ہے جو پہلے ہی کئی وزارتوں اور وزیر اعظم کےاپنے سٹریجک ریفارمز یونٹ کے تحت کام کر رہی ہیں جن کی نگرانی جہانگیر ترین اور وسیع ریفارمز پروگرام کے ذمہ دار ڈاکٹر عشرت حسین کر رہے ہیں۔زیادہ تو علم نہیں لیکن جس طرح عمران خان کے قریبی حلقوں میں سیاست ہورہی ہے اُس کے ایک مشیر صاحب دوسرے بہت قریبی مشیر کو ہٹانے، اس کا اختیار کم کرنے، اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور اس کے مقابل اپنا ادارہ قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔اُس مشیر نے ایک گھاگ بھیدی کو قابو کیا جو پرانی کاروں کے بیوپاری کی طرح خوشامد انہ گفتگو کرنے میں ماہر تھا۔ اُسے مکمل اختیار کے سبز باغ دکھائے بادشاہ کے حضور پیش کر دیا۔مجاز اتھارٹی نے بھی اس کو بہت پسند کیا۔عمران خان کو یہ ادراک نہیں کہ ٹاسک فورس کسی تھنک ٹینک کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ٹاسک فورس تو کسی منصوبے کی تکمیل کرنےوالی ٹیمیں ہوتی ہیں جن میں مختلف صنعتی شعبوں کے ماہرین اور تجربہ کار ملازمین ہوتے ہیں جن کو مقررہ وقت پر پراجیکٹ مکمل کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے کے لئے عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ بائیس سال تک حزب مخالف کے طور پر جدو جہد کرنے والی قیادت کا طور طریقہ حکومت میں آنے کے بعد ناکام ہو گیا ہے۔ حکومت چلانےاور وزیر اعظم کے فرائض نبھانے کےلئے وہ مطلوبہ لوازمات سے لیس نہیں ہے جو بہت خطرناک بات ہے۔ایک موثر اور کارگر طریقہ تو یہ ہے کہ عمران خان کے لئے ایک مضبوط ذاتی ٹرینر اور گرُو کی خدمات حاصل کی جائیں جو سائے کی طرح اس کے ساتھ رہے ۔ جو اس کی انگلی پکڑ کر حکومت کرنے کے رموز سمجھائے اور عمران کی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ کر۔ یہ شخص چیف آف سٹاف کی شکل میں اس کے قریبی حلقوں میں ہر وقت موجود رہے۔عمراں کے گھمنڈ اور منہ زوری کی وجہ سے ممکن نہیں کہ وہ کہے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں اور پھر وہ سیکھنا شروع کر دے تاکہ وہ اپنا کام بہتر انداز میں انجام دے۔میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان ایک زیر تربیت وزیر اعظم رکھنے کی عیاشی کب تک برداشت کر سکتا ہے۔خاص طور پر جب ایک سال گذر جانے کے بعد بھی وہ بڑے فخر سے کہہ رہا ہے کہ اس کا عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ کے طور پر لگانے کا فیصلہ بالکل درست تھا اور جب تک پی ٹی آئی بر سر اقتدار رہے گی بزدار ہی پنجاب کا وزیر اعلیٰ رہے گا۔عقیدت میں اندھے عمران خان کے جیالوں کا ایمان ہے کہ اس کے فیصلوں میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ انہوں نے بڑے پہنچے ہوئے سائیں بابوں کی طرح عمران کے فیصلوں کو درست ثابت ہوتے دیکھا ہے۔وہ جیالے ماضی قریب میں عمران کے عقد میں آنے والی خاتون کو بھول جاتے ہیں جس نے عمران کی ذات اور اُس کےسیاسی سفر کا تقریباً خاتمہ کر دیا تھا۔دوستو میر ی بات بری لگے گی مگر جان لو کہ عمران غلطیوں سے مبریٰ نہیں۔عمران نے زندگی میں فیصلے کرنے میں انتہا ئی غلطیاں کیں جن کا اس کو پتہ ہے۔ اگر ان غلطیوں سے اس کی ذاتی زندگی متاثر نہیں ہوئی تو وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان غلطیوں کا تدارک بھی نہیں کرے گا۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور محمود خان کے تقرر کا شمارعمران خان کی ثانی الذکر بڑی غلطیوں میں ہوتا ہے۔ہم اس کی بد حواسیوں کے پیش نظر اس تکلیف دہ نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے منصب کے جھمیلوں میں الجھ کر بے دست و پا ہو کررہ گیا ہے ۔وہ ڈوبتے ہوئے شخص کی مانند ہے تنکوں کے سہاروں کی تلاش میں ہے۔یا پھر وہ خوفزدہ سپاہی کی مانند اندھیرے میں اندھا دھند گولیاں برسا رہا ہے۔ ان نے وزیر اعظم کے طور پر جو کام اپنےذمے لے لیا ہے وہ اس کی استطاعت سے بہت زیادہ ہے۔عمران کی نا اہلی، لا علمی، ناتجربہ کاری، اکڑ فوں، منہ زوری اور خوشامد پسندی سے پاکستان کو درپیش حقیقی خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔عمران خان ان لوگوں کا ممنون ہے جو 22 سالہ سیاسی جدوجہد میں ا س کے ساتھ کھڑے رہے۔ وہ ان لوگوں کی دلجوئی کرنا چاہتا ہے مگر اس کا عوامی موقف آڑے آجاتا ہے کہ تمام عہدے اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔کس کو کوئی سیاسی اور سرکاری عہدہ اس بنیاد پر نہیں ملے گا کہ وہ سیاسی جد وجہد میں عمران کے شانہ بہ شانہ کھڑا تھا۔عمران کو چاہئے کہ وہ کسی مضبوط آدمی کو اپنا چیف آف سٹاف مقرر کرے جو اس کے روزمرہ معاملات کی دیکھ بھال کرے، معلومات کی آمدورفت پر نظر رکھے اور اس کےفیصلوں کی نزاکت کا جائزہ لیا کرے۔ عمران کا پرسنل سیکرٹری قابل اور مضبوط شخص ہونا چاہئے جو دغا باز حواریوں کو اس سے دور رکھے اور پارٹی معاملات کم سے کم زیر بحث لائے۔یہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو موجودہ سیکرٹری کی طرح خود کو ڈپٹی پرائم منسٹر یا کابینہ کا وزیر نہ سمجھے۔یہ کام نا ممکن نظر آتا ہے۔ کون ہوگا ایسا شخص جو یہ کام کما حقہُ کر سکے۔پھر عمران ایسے سیانے اور مضبوط شخص کو کیسے قبول کر پائے گا جو اس کے غلط احکام پر روک ٹوک بھی کرسکتا ہو۔پاکستان کے بہتر اور روشن مستقبل کے لئے بہتر ہوگا کہ عمران خان پاکستان کے صدر بن جائیں۔ اس طور وہ قوم کی رہنمائی کر سکیں گے، اپنی کرشماتی شخصیت سے عوام کی ڈھارس بھی بندھائیں گے۔ انہیں چاہئے وہ اپنے روز مرہ کے کام ایسے شخص کے حوالے کردیں جو اہلیت اور ایمانداری میں ان کے ہم پلہ ہو اور کرپشن سے پاک پاکستان کے بارے عمران خان کے وژن کو ملحوظ خاطر رکھے۔عمران خان کے ساتھیوں کی موجودہ کھیپ مں سے اس منصب کے لئے اسد عمر بہترین انتخاب ہوگا۔اس کے کندھوں پرعمران کی طرح سیاسی قیادت کے فرائض کی ذمہ داریوں کا زیادہ بوجھ بھی نہیں ہوگا۔ اسد عمر کے لئے اہم سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لئے اہل اور قابل افراد کا تقرر کرنا بہت آسان ہوگا۔عمران خان جیسے لوگ بر سر اقتدار آجائیں تو ان کو سوچنا چاہئے کہ ان پر عوام کی طرف سے اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ موقع اس لئے نہیں ملا کہ اپنےکاسہ لیسوں اور خوشامدیوں میں سرکاری وسائل کی بندر بانٹ کی جائے۔ اپنی انا کی تسکین کی جائے اور اپنی ناتجربہ کاری، جہالت اور نااہلی کا مظاہرہ کیا جائے۔اس لئے جناب وزیراعظم آپ سے دست بستہ درخواست ہے کہ آپ یا تو سدھر جائیں یا ہٹ جائیں۔دوستو اس کے ساتھ ہی مضمون کا اختتام ہوتا ہے۔ قافلے کا سفر جاری ہے مگر یہ سگ خاموش ہو گیا ہے۔شائد سگ اس سے پہلے قافلے والوں کو بڑھتے ہوئے طوفان سے خبردار کرنے کے لئے صدائیں دے رہا تھا۔یا پھر بادشاہ سلامت اپنی بہتر کارکردگی سے مجھے غلط ثابت کر دیں تو بڑی خوشی ہوگی۔I’m sure you’re being briefed on this long running tragedy in Indian Occupied Kashmir.

And he knows it. He’s working incredibly hard. Period! Once with Gen. Waheed Kakar, who mediated in the spat between him and President Ghulam Ishaq and made both resign in 1993 and then later in 1998, forcing Gen. Jehangir Karamat to resign as the Army Chief.What happened on October 12th, 1999 is a dark episode in our history.

PPP is a party most at risk and tottering on disintegration as the Zardari / Faryal hold weakens and the Bhutto magic fades. Any change, at all!

And unbeknownst to Master Bilawal is reporting everything to “them”! Nadeem Babar was left with the unenviable and unsuccessful task of fending off the baying hounds.Another recent decision hot of the press and barely two days old. One just has to read the 8 TOR’s to go into a tizzy. Let Nawaz be treated by a system he ruled over for 35 years.But, this terrible system must be destroyed and uprooted, if Pakistan is to survive!More critically, Pakistan cannot afford Imran’s failure!As the political temperature rises and falls in Islamabad, there is still confusion, ambiguity, ambivalence, perhaps even a fear of violence and unrest as a result of an intemperate action by Fazlur Rehman or his cohorts.That Fazlur Rehman is way over the line.
A coalition government with Zardari as President and Imran as PM. Our Army defeated, and a devil incarnate in the shape of Zulfiqar Ali Bhutto. Just wait. He is a prolific writer and contributes political and analytical articles to national and international dailies on regular basis.

Harder than any other person in his team! In a perverse reversal of fortunes, PM Imran and Gen. Bajwa may be presiding over the baton change as Gen. Bajwa uses the military to strengthen civilian institutions.Some may find this hard to believe, but if ever there was a chance towards civilian supremacy, it’s under Gen. Bajwa.I believe never has a time been more opportune to revamp our political and electoral process to get rid of the current fossilized electoral system, hijacked by these kleptocrats to be replaced by one which engages subject matter experts and specialists, who otherwise would never make it to parliament or to high public and policy making office to handle the most complex art of political governance in a highly complex, technology driven world.And also never has a time been more opportune to revamp our judicial system, especially our Superior Judiciary, who allow criminals to go free, using the letter of the law and sadly, also playing god!


Especially if a National Emergency is declared so decisions are not challenged and made redundant by spoilers in courts of law.

We have to get the right people, make correct policies, fix processes. Poverty alleviation. This is our only option! Today, represented by the likes of Nawaz, Zardari, Bilawal, Fazlur Rehman, Asfandyar, Achakzai, Siraj Ul Haq and those like them. Estimates of food requirements for about 60 million of the most impacted range from Rs 100 to Rs 300 billion for a 6 month period. Chishti famously narrates how Gen. Zia told him when the coup was being planned. Not surprised this happens. But he didn’t and will forever be remembered for this lack of moral courage!Gen. Economic indicators, Tax reforms. But Mr. Modi is NOT in Control and is NOT a Bilateral issue between Indian and Pakistan!I’m not sure if you or many others understand that we are potentially seeing the start of a human tragedy of massive proportions and the potential of nuclear conflict!What we are witnessing today is the start of a deliberate, brutal and violent ethnic cleansing and complete marginalization of the Muslim community in Indian Occupied Kashmir who are being and will continue to be put in vast concentration camps as were Jews in Nazi Germany.And President Trump, this will lead to much more violence on all sides with countless innocents killed. That Bilawal and Maryam are great leaders.

The economy we will rebuild if we come through less scarred.Our richest must come forward and donate generously.

Other than his own, of course.Fazlur Rehman, in my view, because of his ability to get several thousand fierce looking, stick brandishing people in Islamabad, is spearheading the  desperate and hopefully last ditch attempt of a deeply entrenched exploitative and corrupt system, represented today, most visibly in Pakistan, by the likes mentioned earlier.Sharifs, Zardari, Bilawal, Maryam, Hamza, their families and their infamous courtiers.And the so called secular left.

Top Defense In Nfl 2019, Roelly Winklaar Arms, Fayetteville Tx Zip Code, Acciona Energy Careers, Germ Stock Forecast, Claes Bang The Square, Living In Azerbaijan, Working Wood One And Two Paul Sellers, Don't Dull Wizkid Lyrics, Maes Hughes Va, Class Trematoda Characteristics, Carrie Pilby Plot Summary, Nida Fazli Shayari Pdf, Ncaa Volleyball Rankings 2020, Sse Airtricity Top Up, Jab Se Hum Tere Aashiq Bane Whatsapp Status, Chris Pratt Net Worth 2020, Pc Watercool Reddit, Ambit Energy Lawsuit 2019, Fuego Menu Calories, In The Good Old Summertime - Youtube, Anatomía Del Corazón, Big Ten Football Championship Tickets, Riverside 500 Hybrid Bike, Me Vale Madre Meaning, Anders Svensson Familj, El Paso Crime Reports, Carechimba Significado Colombia, Brian Robbins First Wife, Slugs Eating Cucumber Plants, Darko Peric 365 Days, Fiu Panthers Jackson McDonald, Amie Name Meaning Urban Dictionary,

haider mehdi writer

haider mehdi writer

Mail:sales@saferglove.com